Jump to content

User:Muhammad sajid 007

From Wikipedia, the free encyclopedia

جنگِ عظیم اوّل

[edit]

پس منظر یورپین طاقتوں کے درمیان 1800؁ کے آخر اور 1900؁ کے آغاز میں دنیا پر سب سے مضبوط معیشت اور دنیا پر طاقت سے قابو پانے کے لئیے ایک مقابلہ شروع ہوگیا ۔ اُس وقت کسی بھی قوم کی طاقت کا اندازہ اس بقات سے لگایا جاتا تھا کہ اس کے پاس دولت کتنی ہے اس کے پاس وسائل کتنے ہیں اس کا رقبہ کتنا ہے ۔ اس کے پاس فوج(آرمی) اور بحری طاقت(نیوی) کا حجم کتنا ہے ۔ بہت سے ممالک کے رہنماؤں کا اس بات پر کامل یقین تھا کہ کوئی ملک اور قوم اس وقت تک سیاسی اور معاشی اہداف حاصل نہیں کر سکتی جب تک اُس کے پاس ایک مضبوط ملٹری پاور(عسکری طاقت) نہ ہو اس ہویقین کو ملٹرییزم (عسکریت پسندی)کہا جاتا تھا ۔جس نے کئی لوگوں کو بے گھر کر دیا کئی معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا کئی بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کر دیا۔


جنگِ عظیم اوّل کا آغاز اور اس کا پس منظر



بہت سے ملکوں نے فوج میں بھرتیاں شروع کر دیں جس میں نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا اور ایک یا دو سال کی فوجی تربیت دی گئی ۔ تربیت مکمل ہونے کے بعد ان نئے فوجیوںکو ریزرو قرار دے کرگھر بھیج دیا گیا تا کہ وقت پڑنے پر انھے تعینات کیا جا سکے اور جنگ کے لیا بھجا جا سکے ۔ہر سال بحری فوج کے بجٹ میں اضافہ کیا جانے لگا اور خاص طور پر یہ اضافہ برطانیہ اور جرمنی میں زیادہ دیکھا گا۔ اگر جنگ چھڑ جاتی تو اس وقت کوئی بھی ملک بغیر کسی اتحادی کے جنگ نہیں لڑنا چاہتا تھا سو دو بڑے اتحادیوں نے زور پکڑ لیا ۔جرمنی اپنے مشرق اور مغرب میں دشمنوں کے گھیرے میں آنے سے خوف زدہ ہو گیا اور آسٹریا اور ہنگری کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر لئے کہ یورپی جنگ میں وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ ٹھیک اسے طرح فرانس اور روس نے برطانیہ کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ملٹریسٹ(عسکریت پسند ) اپنی قوم کی فوج کو تنقید سے بالا تر سمجھتے تھے۔لوگوں نے اپنی افواج کی قربانی ،نظم وضبط اور فرمانبرداری والےاقتدار کی بہت تعریف کرتے تھے۔جنگ کو لوگ بہت تیزی سے ملک کے لئے لڑنے مرنے اور مہم جوئی والے موقع کے طور پر دیکھنے اور سمجھنےلگے جیسے کوئی جنگ نہ میلہ ہو کیونکہ انھے جنگ کی تباہی کا اندازہ ہی نہیں تھا کے کیا ہونےوالا ہے۔کارل پیئرسن ایک برطانوی مصنف تھا جس نے اس وقت دعوٰی کیا کہ جنگ ضروری ہے ۔وہ اس بات پر ڈٹا رہا کہ‘‘قومیں "مقابلے کے ذریعے، خاص طور پر کمتر نسلوں کے ساتھ جنگ کے ذریعے، اور تجارتی راستوں اور خام مال اور خوراک کی فراہمی کے ذرائع کے لیے جدوجہد کے ذریعے مساوی نسلوں کے ساتھ" دنیا میں اپنا صحیح مقام قائم کر سکتی ہیں’’۔

اسی طرح باقیوں کے بھی نظریات تھے ۔کاؤنت تھیوبالڈ وون بیتھ مین ہاؤلگ جو جرمنی کا چانسلر تھا اُس نے بیسویں صدی کے آغاز دعوٰی کیا کہ:

"پرانی کہاوت اب بھی اچھی ہے کہ کمزور طاقتور کا شکار ہوں گے۔ جب کوئی قوم اسلحے پر اتنا خرچ نہیں کرتی یا جاری نہیں رکھ سکتی کہ وہ دنیا میں اپنا راستہ بنا سکے تو پھر وہ دوسرے درجے میں آ جاتا ہے۔"



پیئرسن، ہاؤلگ اور دوسرے یورپی لوگوں کے خیال میں ایک قوم کسی ملک سے بڑھ کے تھی ۔ان کے نزدیک، ایک قوم کے ارکان نہ صرف ایک مشترکہ تاریخ، ثقافت اور زبان کا اشتراک کرتے ہیں بلکہ مشترکہ آباؤ اجداد، کردار کی خصوصیات اور جسمانی خصوصیات بھی۔ اس لیے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ایک قوم ایک حیاتیاتی برادری ہے اور اس میں رکنیت ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ایک قوم میں عقیدہ ایسا ہی تھا جیسا کہ بہت سے لوگ نسل کے بارے میں یقین رکھتے تھے۔بعض مورخین نے 1910؁ کے اوائل میں یورپیوں کو پاؤڈر کیگ(بارود کا ایک بیرل) قرار دیا۔

جنگ کی اصل وجہ یورپی جنگ کو لے کر کچھ زیادہ ہی جنون تھا کیوں کہ وہ دنیا کی باقی قوموں پر خود کو برتر ثابت کرنا چاہتے تھے۔ان کے پاس بڑھتی ہوئی فوج تھی جنگی طاقت تھی۔ اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مخالف فوجی اتحاد تشکیل دے چکے تھے، جنگ کی صورت میں اپنے ساتھی ممالک کی حمایت کرنے کا عہد کرتے تھے۔ بارود کے بیرل کی طرح، سب سے چھوٹی چنگاری ہر چیز کو پھٹاسکتی تھی۔ پہلی جنگ عظیم شروع کرنے والی چنگاری 28 جون 1914 کو اس وقت آئی جب سرائیوو شہر میں ایک نوجوان سربیائی محب وطن نے آسٹرو ہنگری سلطنت (آسٹریا) کے وارث آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ قاتل مملکت سربیا کا حامی تھا اور ایک ماہ کے اندر آسٹریا کی فوج نے سربیا پر حملہ کر دیا۔ پورے یورپ میں جو فوجی اتحاد بن چکے تھے، اس کے نتیجے میں پورا براعظم جلد ہی جنگ کی لپیٹ میں آ گیا۔ [https://www.dunyatareekhaurhum.com/2023/05/%20-%20-.html چونکہ یورپی اقوام کی دنیا بھر میں بے شمار کالونیاں تھیں، اس لیے جنگ جلد ہی ایک عالمی تنازعہ بن گئی